یوم عرفہ کی اہمیت و فضیلت
12th June 2024
یوم عرفہ کی اہمیت و فضیلت
مفتی غلام یسین نظامی
عَرَفَہ، ماہ ذوالحجہ کے نویں دن کو کہا جاتا ہے جس کی دین اسلام میں بہت اہمیت ہے۔عرفہ کا نام سرزمین عرفات سے ماخوذ ہے، یہ پہاڑوں کے درمیان ایک معلوم اور شناخت شدہ زمین ہے اسلئے اسے عرفات کہا جاتا ہے۔یوم عرفہ مسلمانوں کے ہاں افضل ترین ایام میں سے ایک ہے اور احادیث میں اس دن کے حوالے سے مختلف اعمال ذکر ہوئے ہیں جن میں سے افضل ترین عمل دعا اور استغفار کرناہے۔روایات میں ملتا ہے کہ یوم عرفہ، اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی ہے۔اس دن حجاج کرام میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں اور دعا اور استغفار کے ساتھ حج جیسے فریضے کی ادائیگی کی توفیق نصیب ہونے پر خدا کا شکر بجا لاتے ہیں۔
قرآن اور سنت رسول میں ذی الحجہ کے پہلے دس ایام اور ان میں بھی یوم عرفہ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے،لہذا ایک عقل مند انسان کے لیئے ضروری ہے کہ ان دنوں کو ضائع نہ کرے اور اپنے لئے آخرت کی زاد راہ تیار کرے اس سفر کے لیئے سامان جمع کرے جو انتہائی طویل ترین اور سخت ترین اور مشکل ترین ہے ایسا سفر جس پر سب کو جانا ہے چاہے کوئی اس کی تیاری کرے یا نہ کرے۔
9 ذو الحجہ کا دن اس اعتبارسے بھی نہایت مبارک ہے کہ اس میں حج کا سب سے بڑا رکن ”وقوف عرفہ“ ادا ہوتا ہے، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے،مگر اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برکات سے غیر حاجیوں کو بھی محروم نہیں فرمایا: اس دن روزے کی عظیم الشان فضیلت مقرر کر کے سب کو اس دن کی فضیلت سے اپنی شان کے مطابق مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔
عرفہ کی وجہ تسمیہ:
عرفہ کی وجہِ تسمیہ کے متعلق بہت سے اقوال ہیں؛جن میں سے تین کوعلماء کرام نے بطور خاص بیان فرمایا ہے:
1۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو 8 ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں، تو ان کو اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے یا نہ ہونے میں کچھ تردد ہوا،پھر9ذی الحجہ کو دوبارہ یہی خواب نظرآیا تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہے،چونکہ حضرت ابراھیم کویہ معرفت اور یقین 9ذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے نو ذی الحجہ کو ”یومِ عرفہ“ کہتے ہیں۔
2۔ 9 ذی الحجہ کو حضرت جبرائیل نے حضرت ابراھیم کوتمام مناسکِ حج سکھلائے تھے،و وہ اس دوران ان سے پوچھتے۔ عرفتَ؟ یعنی جو تعلیم میں نے دی ہے، کیا تم نے اسے جان لیا؟ حضرت ابراھیم جواب میں کہتے؛ عرفتُ، ہاں میں نے جان لیا۔آ خر کار دونوں کے سوال وجواب میں اس کلمے کا استعمال اس جگہ کی وجہ تسمیہ بن گیا۔
3۔ حضرت ا ٓدم اور حضرت حواجنت سے اتر کر اس دنیا میں آئے تو وہ دونوں سب سے پہلے اسی جگہ ملے، اس تعارف کی مناسبت سے اس کا نام عرفہ پڑ گیا اور یہ جگہ عرفات کہلائی۔
عرفہ اور قرآن و حدیث:
جس دن کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے:عظیم الشان اورمرتبہ والی ذات عظیم الشان چیز ہی کی قسم اٹھاتی ہے اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے۔ قسم ہے اُس دن کی جو حاضر ہوتا ہے اور اُس کی کہ جس کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔
یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اولاد آدم سے عھد میثاق لیاتھا:
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اوران سے آمنے سامنے بات کرتے ہوئے فرمایا:کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس محض بے خبر تھے، یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہو، توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟ الاعراف (172- 173)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ایسا کوئی دن نہیں، جس میں شیطان اتنا زیادہ ذلیل و خوار، حقیر اور غیظ سے پُر دیکھا گیا ہو جتنا وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔
یوم عرفہ مسلمانوں کی خوشی کا دن:
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:بے شک! یومِ عرفہ، یومِ نحر اور ایامِ تشریق ہم اہلِ اسلام کے لیے(گویا) عید کے دن ہیں (اس لیے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے)۔
اہلِ عرب اور وقوفِ عرفہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ٹھہرا کرتے تھے اور اس قیام کو حُمس کہتے تھے اور باقی تمام عرب کے لوگ بھی عرفات میں ٹھہرتے تھے، جب دینِ اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پاک کو حکم دیا کہ وہ عرفات میں جائیں اور وہاں ٹھہریں اور پھر وہاں سے واپس ہوں۔
وقوفِ عرفہ کی اہمیت:
وقوفِ عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کو ہر حاجی کا میدانِ عرفات میں پہنچنا اس کے حج کی ادایگی کے سلسلے میں سب سے بڑا رُکن ہے جس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ چناں چہ حج کے دو رکنوں: طواف الافاضہ اور وقوفِ عرفات میں وقوفِ عرفات چوں کہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے، اس لیے اگر یہ ترک ہو گیا تو حج ہی نہیں ہوگا۔ ایک حدیث میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:حج تو عرفہ ہی ہے۔ (نسائی)
بندوں کی معافی کا دن:
حضرت ابن مسیب سے روایت ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن اپنے بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا اور اللہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ سارے بندے کس ارادے سے آئے ہیں؟(مسلم)
گویا ان کے دل میں جو ارمان و ارادہ ہو، اسے پورا کر دیا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:بے شک!اللہ تعالیٰ اہلِ عرفات کے سبب آسمان والوں (یعنی فرشتوں) پر فخر فرماتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ میرے ان بندوں کو دیکھو یہ میرے حضور پراگندہ بال اور گرد آلود آئے ہیں۔(ابن حبان)
عرفہ کا روزہ:
رسول اللہ کاارشادِ گرامی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ (یعنی 9 ذی الحجہ) کا روزہ ایک سال گذشتہ اور ایک سال آیندہ کے صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم)
اس لیے اس ثواب کا حاصل کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔
اس دن دین اسلام کی تکمیل اورنعتموں کا اتمام ہوا:
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ایک یہودی نے عمربن خطاب سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آیت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آیت ہم یھودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے توحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے؟
اس نے کہا:
الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا
(المائدۃ:3.)
آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کوکامل کردیا اورتم پراپناانعام بھر پور کردیا اورتمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا۔
توحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے:
ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے، جب یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں تھے۔اللہ تعالی ہمیں اس دن کی برکات نصیب فرمائے۔آمین
اس دن کے اعمال میں افضل ترین دعا اور استغفار ہیں